سحر ہونے کو ہے! کاشف شمیم صدیقی کی پُراثر نظم
ایک امتحاں ہے یہ ۔۔۔ صبر وہمت، حوصلے کا!
تو کیا ہوا اگر آج
چہرے سے ہنسی غائب ہے
اُلجھا ہوا ہے ذہن میرا،
نیند آنکھوں سے بھی خائف ہے
کہتے ہیں یہ سبھی لوگ مجھے
کہ شاید تمہیں کچھ "ایسا" ہوا ہے
گئیں ہیں جس سے جانیں بہت سی،
اور نہ دستیاب اس مرض کی
کوئی دوا ہے!
بہت ممکن ہے
ہاں، ہوسکتا ہے یہ بھی
کہ ہو جاؤں میں،
بالکل تنہا!
منقطع سبھی سلسلے ہوں،
محفلوں سے میں ہوجاؤں منہا
نہ دوستوں میں جاسکوں،
نہ تازہ کھُلی فضاؤں میں
نہ تپش سورج کی محسوس ہو
نہ پاؤں خود کو،
ٹھنڈی سرد ہواؤں میں
بس پاس میرے ہوں،
چند مخصوص دوائیاں
اے کاش اسی خلوت میں،
مل جائے مجھے رب سائیاں
نہیں، میں بالکل بھی مایوس نہیں
کیونکہ ابھی حوصلے میرے،
زندہ ہیں!
ہمّتیں سبھی یکجا ہیں
زندگی کی جستجو میں،
کچھ خواب ابھی پنہاں ہیں
ہاں بس اب
یہ فیصلہ ہے میرا،
میں یہ طے کرچُکا ہوں
کہ نہ مانوں گا میں ہار،
ہو چاہے کچھ بھی جائے
دعا ہے اس اندھیری شب کا سویرا،
اب جلد ہی ہوجائے
(آمین)
شاعرِ امن
کاشف شمیم صدیقی
Comments are closed on this story.